وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو اللٰہ نے جس عزت سے نوازا ہے اس قدر قلیل مدت میں شاید ہی کسی کو ایسی عزت نصیب ہوئی ہو۔ قدرت کی طرف سے یہ انعام محسن نقوی کے حصے میں سخت محنت اور کوشش کے بعد آیا ہے۔ انہوں نے عوام کی ترقی ہو یا فلاح و بہبود، مسائل کا حل ہو یا عوام الناس کی تفریح کے مواقع، دن رات ایک کرکے عوام کی خدمت کی ہے جس کی مثال پنجاب کی 70 سالہ تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔
اس کے باوجود اگر چند سماج دشمن عناصر پنجاب حکومت کی دشمنی میں اتنے اندھے ہو جائیں کہ ہر وقت تنقید کے بخار میں مبتلا ہوں تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ تنقید تعمیری ہو تو ہمیشہ مسائل کا حل نکلتا ہے لیکن تنقید کا مقصد اگر واضح طور پر تخریب ہو تو بظاہر یہ عمل ترقی کے عمل میں روڑے اٹکانے کے مترادف ہوا کرتا ہے، ناقدین یوں تو ہر دور میں رہے ہیں لیکن محسن نقوی کو جو ناقدین ان کے دور اقتدار میں ملے ہیں ان کا شمار نیم پڑھے لکھے جہلاء میں باآسانی کیا جا سکتا ہے
واقعات کو حقائق کے برعکس تروڑ مروڑ کر پیش کرنا ان کی سرشت میں شامل ہوچکا ہے۔ جنہیں صرف اور صرف اندرونی جیب میں جانے والے لفافوں کا وزن محسوس ہوتا ہے کسی کی بےلوث خدمت کا نہیں۔
یہ ایسے سماج دشمن عناصر ہیں جنہیں دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا ہوا پنجاب ایک آنکھ نہیں بھایا۔ اچھے کام کو خراج تحسین پیش کرنا تو درکنار شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بچھائے گئے ریڈ کارپٹ پر ہی تنقید کرنے لگے۔ ہوا کچھ یوں کہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے منڈی بہاوالدین کے دورے کے دوران دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں محکمہ پولیس کے شہید ہونے والے افسر اشرف مارتھ کو پولیس کا ایک دستہ سلامی دینے پہنچا چونکہ شہداء کو خراج تحسین پیش کرنا ہماری روایت بھی ہے اور وطن عزیز کے لئے جان کی بازی لگانے والے شہداء کا حق بھی۔۔سلامی کی غرض سے محکمے نے وہاں ایک کارپٹ بھی بچھا دیا۔ جب وزیر اعلیٰ وہاں پہنچے تو وہ بھی اسی کارپٹ پر چل کر وطن کے لئے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہونے والے اشرف مارتھ کی قبر پر فاتحہ کے لئے گئے، اتنی سی بات تھی۔
وزیر اعلی محسن نقوی نے بھی اپنی ٹویٹ میں بعض نام نہاد صحافیوں کی ہرزہ سرائی کو سستی شہرت کے حصول کی ایک کوشش قرار دیتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ انہوں نے اس مختصر دور اقتدار میں کسی ایک دن بھی سرکاری پروٹوکول نہیں لیا، ان کا کہنا ہے کہ شہدا کی قربانیاں تو پوری قوم پر قرض ہیں جو ادا نہیں کیا جاسکتا، حقائق مسخ کرنے والے اصولی صحافت کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کریں۔
دراصل چند صحافی جنھیں خبروں کے تاجر کہنا زیادہ مناسب ہے،سیٹھوں سے لاکھوں روپے کی تنخواہ لے کر ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھے ٹویٹر پر ایسے ایسے بیہودہ من گھڑت اور گھٹیا الزامات لگا دیتے ہیں۔جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔حتیٰ کہ فون کر کے کسی کا موقف لینے یا حقائق تک پہنچنے کی کوشش تک نہیں کی جاتی۔ اب یہ واقعہ ہی لے لیں، کس طرح بعض صحافیوں نےمحسن نقوی جیسے باکردار اور تاریخ کے کامیاب ترین وزیر اعلی پر انگلیاں اٹھانا شروع کردیں، اس محسن نقوی کو تنقید کا نشانہ بنانا جس نے اپنے قلیل ترین دور اقتدار میں ترقی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ شاید ہی مستقبل میں کوئی اور برسر اقتدار آکر اس قدر برق رفتاری سے یہ منازل طے کرسکے گا، ایسے صاف شفاف انسان پر ریڈ کارپٹ پروٹوکول کا الزام لگانے والوں کو ندامت سے ڈوب مرنا چاہیئے۔
زرد صحافت کے یہ چھاتہ بردار کسی دن اپنے ائیر کنڈیشن اور لگژری کمرے چھوڑ کر کیمرے اٹھائیں اور صرف 24 گھنٹے محسن نقوی کے ساتھ گزاریں اور دیکھیں کہ وہ کس جانفشانی سے اپنی صحت اور جان کی پرواہ کیے بغیر صوبے کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں