ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻧﮧ ﯾﺎﺩ ﮨﻮ: میڈیا بلیک آؤٹ اور قطب الدین عزیز کی کتاب خون اور آنسو

Date:

Share post:

 آج چھ فروری2024 ہے اور واٹس ایپ پر پیغامات آرہے ہیں کہ سات فروری 2024 سے پاکستان میں انٹرنیٹ بند ہو جائے گا اور نو فروری 2024 کو کھل جائے گا. اس دوران آٹھ کو جنرل الیکشن کا انعقاد ہو جائے گا. اس خبر کو بھی نظر انداز کردینا چاہیے یا پریشان نہیں ہونا چاہیے. کم از کم میرے جیسوں کو جن کو کوئی شائد ڈھنگ سے سماجی حصّہ داروں میں  شمار بھی نہیں کرتا. جن خواتین اور حضرات کو بولنے اور لکھنے کا معاوضہ ملتا ہے یا جن کی این جی اوز ان امور پر فنڈز حاصل کرتی ہیں وہ بھی زیادہ نہیں چلا رہے بلکہ کسی اچھی جگہ چل  کر رہے ہیں تو اپنا جھنجلانا یا جی جلانا اور بھی بے وجہ لگتا ہے. لیکن جب تین عشروں سے سماجی اور سیاسی امور کو صنفی لینس سے پرکھنے کی عادت ہو اور بے مایہ کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ اور جنون ہو تو لا تعلق رہنا محال ہو جاتا ہے . یہی ہمدلی خود کو رلاتی ہے اور ذہن کو سوالات کرنے سے منع کرنے سے ناکام رہتی ہے . میں بھی کئی دنوں سے اپنے آپ کو جلا رہی ہوں کہ اب کی بار کئی بڑی سیاسی پارٹیز کی طرف سے خواتین امیدواروں کی تعداد الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ لازمی پانچ فی صد سے مجموئی طور پر کم ہےیا ورکرز کو ہمیشہ کی طرح کم کم ہی ٹکٹ ملے یا غیر مراعات یافتہ  طبقے کی نمائندگی یا اقلیت کی نمائندگی یا عام خواتین کی نمائندگی اور الیکشن کے حوالے سے کئی معاملات میں ان کی شمولیت یا شراکت مدھم ہےیا رسمی یا ٹوکنِسم کا کلاسک کیس ہے . حالانکہ کچھ گنے چنے خیر خواہ جو میرے پاس ہیں ان کی رائے کے مطابق تو مجھ کو اپنی   بڑی  عمر اور اس سے بھی بڑے نشیب وفراز دیکھنے کے پیش نظر   اور خود کی زندگی کسی سٹار پلس کے ڈرامے سے بھی زیادہ ڈرامیٹک ہونے کے بعد پاکستان کی کسی بھی ادا پر نا تو حیران ہونا چاہیے اور نا ہی پریشان اور نا ہی خوش گمان کہ کچھ لکھنے سے کہنے سے کچھ بدلے گا .

 

سموسے کھاتےقہقہے لگاتےتاریخ سے نا آشنا یا سلیکٹو ا ڈ و کیسی کو صحافت کا لبادہ اوڑہائے ہُوئےبے لگامبے باکآزاد ماہرین ابلاغ کو ٹی وی چینلز پر بولتے دیکھ کر نجانے کیوں میں مزید بکھر جاتی ہوں. بس یونہی  1970 کے1نتخابات کی جانب دھیان چلا جاتا ہے. کرب کی کیفیات میں سوچوں کا ایک ریلا سا ساتھ رہتا ہے.میں کتابوں میں عافیت تلاش کرتی ہوں . کتاب بینی نا صرف انٹلیکچوئل تنہائی کی ساتھی ہوتی ہے بلکہ میڈیا اور سماجی ترقی کی انڈسٹری سے منہا کر دیے جانے کی تذلیل اور توہین کے احساس کو بھی نئی توجیہ دے دیتی ہے .

 

میں آج کل ایک کتاب جو پاپولر یاداشت میں نایاب ہے اور نامی گرامی دانشوروں اور صحافیوں کی ریڈنگ لسٹ سے خارج ہے دوبارہ پڑھ رہی ہوں. یہ کتاب انگریزی میں ہے . خون اور آنسو جس کو کمال کے صحافی اور سفارت کار قطب الدین عزیز نے تحریر کیا تھا . آج کا بلاگ 1974 میں شائع ہونے والی ٣٣ ابواب پر مبنی اس اہم تصنیف جس میں اکہتر میں محب وطن غیر بنگالیوں( بیشتر بہاری ) اور بنگالیوں کے ساتھ ظلم کی شواہد پر مبنی داستانیں ہیں اور پاکستان کی بقا کے لیے فنا ہونے والی بہاری قوم کی نسل کشی اور ان کے ساتھ ہونے والی بربریت قلمبند ہےکے متعلق تو نہیں ہے . دل پھر بھی ضد کر رہا ہے کہ ایک اقتباس آپ کی خدمات میں 

پیش کردوں

“مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے مظالم سے بچ کر پانچ ہزارپاکستانی بحری جہاز کے ذریعے چاٹگام سے کراچی پہنچے۔ انہوں نے مظالم کی جو کہانیاں سنائیں، ان کا ایک لفظ بھی مغربی پاکستان کے پریس میں شائع نہیں ہوا۔ ایک اخبار نے ’’ہمت‘‘ دکھاتے ہوئے یہ ’’خبر‘‘ دی تھی کہ مشرقی پاکستان میں حالات معمول پر ہیں۔ گویا پانچ ہزار افراد معمول کی صورت حال سے گھبراکر وہاں سے نکل بھاگے تھے!مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران ہزاروں غیر بنگالی ڈھاکا ایئر پورٹ پر فوج کی نگرانی میں پڑے رہے تاکہ اپنی اپنی باری آنے پر مغربی پاکستان منتقل ہوسکیں۔ مشرقی پاکستان سے آنے والوں کے ساتھ تابوتوں میں عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے جانے والے فوجیوں اور عام غیر بنگالی پاکستانیوں کی لاشیں بھی کراچی ایئر پورٹ پہنچتی تھیں مگر اس حوالے سے مقامی یا بین الاقوامی پریس میں کوئی خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ڈھاکا ایئر پورٹ پر فوج کے پہرے میں طیارے پر سوار ہونے کے لیے باری کا انتظار کرنے والوں کے بارے میں بھی کوئی خبر کہیں شائع نہیں ہو پاتی تھی۔ کراچی ایئر پورٹ پر لاشیں وصول کرنے والوں کی آہ و بُکا کی خبر اخبارات میں اِس لیے شائع نہیں ہو پاتی تھی کہ وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ایسی خبروں پر سختی سے پابندی عائد کر رکھی تھی۔”

( اسے ردو کے قالب میں ڈھالنے کا سہرا کراچی کے ایک ادارے معارف اسلامی کے سر ہے ).

میری کیا بساط اور کیا اوقات؟ کچھ نہ کچھ اس لئے لکھ دیتی ہوں کہ شائد کسی کو کچھ عملاً کرنے کی توفیق ہو جائے اور شائد الله ہم سب کو معاف کردے. 

 

3 COMMENTS

  1. کراچی سے ایک سچے اعلٰی تعلیم یافتہ اعلٰی نسب تباہ حال پاکستانی کا تبصرہ “مختصر اور پُر اثر. بہت جامع تحریر جو اُس وقت کے ذرائع ابلاغ کے اجتماعی رویے یعنی وہ حقیقت جو مغربی پاکستان کی سرزمین تک فوجیوں کی لاشوں اور لُٹے ہوئے بہاریوں کی صورت میں ظاہر تھی، اس سے منہ موڑ کر بزنس ایز یوظل میں مصروف ہوگئے.
    جیسے کچھ ہؤا ہی نہیں. پھر دسمبر 1971 کے پہلے دو ہفتوں میں مشرقی پاکستان میں جاری آپریشن کے نتائج کو مزید خفیہ نہیں رکھا جاسکتا تھا.
    سولہ دسمبر سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ تو گویا بےخبر سوئے ہوئے لوگوں پر بجلی گرنے کی طرح اس خوابِ شیریں سے یکدم بیدار کر گیا جو اس لوری کا نتیجہ تھا

    “محبت کا زمزم بہہ رہا ہے

    *business as usual

  2. Many people use their lotteries to raise money for precious initiatives that improve education, general public infrastructure and cultural services.
    Once you play the lottery, you’re assisting to account these
    programs while you fund your own wishes of
    winning it big. Have fun and all the best!

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

spot_img

Related articles

CEC Sikandar Sultan Raja’s Nephew Secures Key PRA Position Illegally For 7 Years, Bypassing Merit

LAHORE: Chief Election Commissioner (CEC) Sikandar Sultan Raja’s nephew, Salman Zafar, has secured the position of Director of Information...

Mohsin Naqvi – A Messiah For Passport Applicants

LAHORE: Federal Interior Minister Mohsin Naqvi made an unexpected visit to the Garden Town Passport Office, which remains...

Pakistan And UAE Explore New Avenues For Cooperation and Investment

ISLAMABAD: The longstanding and brotherly ties between Pakistan and the United Arab Emirates, rooted in shared history, religion,...

A Cinematic Journey Across Europe: European Film Festival Returns To Four Cities Across Pakistan

ISLAMABAD: Film enthusiasts in the twin cities of Islamabad and Rawalpindi had the chance to experience European cinema...